مختصر کہوں, تو سنو
بہت مختصر ھوں, تیرے بغیر
-
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزادیہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجادٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری یہی ہے باد مرادقصوروار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آبادمری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیادخطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیادمقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد -
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیاتم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیااوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیاابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیالے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیاتم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا