اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

یہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری یہی ہے باد مراد

قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد

خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں

جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہوں

عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا

عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا
خبر نہیں ہے کہ سورج کدھر سے نکلا تھا

یہ کون پھر سے انہیں راستوں میں چھوڑ گیا
ابھی ابھی تو عذاب سفر سے نکلا تھا

یہ تیر دل میں مگر بے سبب نہیں اترا
کوئی تو حرف لب چارہ گر سے نکلا تھا

یہ اب جو آگ بنا شہر شہر پھیلا ہے
یہی دھواں مرے دیوار و در سے نکلا تھا

میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا
کہ دل کا زہر مری چشم تر سے نکلا تھا

یہ اب جو سر ہیں خمیدہ کلاہ کی خاطر
یہ عیب بھی تو ہم اہل ہنر سے نکلا تھا

وہ قیس اب جسے مجنوں پکارتے ہیں فرازؔ
تری طرح کوئی دیوانہ گھر سے نکلا تھا

کس لیے اب اداس بیٹھی ہو

جب وہ اِک شخص دسترس میں تھا
اس سے ملنا تمہارے بس میں تھا
اس کی آنکھیں تمہاری آنکھیں تھیں
اس کی باتیں تمہاری باتیں تھیں
اس کا چہرہ تمہارا چہرہ تھا
اس کے دل پر تمہارا پہرہ تھا
اس کی ہر سانس میں بسی تھیں تم
اس کے ہر لفظ میں کِھلی تھیں تم
اس کے سپنوں میں بھی رچی تھیں تم
اس کی نیندوں میں جاگتی تھیں تم
وہ جو کہتا تھا بے قراری ہے
میری ساری وفا تمہاری ہے
صرف تم سے مجھے محبت ہے
صرف تم سے میری حقیقت ہے
کتنی باتیں میں کہہ نہیں سکتا
دور تم سے میں رہ نہیں سکتا
تب تم اس کے ہر ایک جملے کو
تب تم اس کے ہر ایک جذبے کو
اِک ہنسی میں اڑایا کرتی تھیں
سن کے تم بھول جایا کرتیں تھیں
اس کی آنکھوں کو دیکھتیں جب وہ
بے نیازی کے درد سہتا تھا
بھول جانا تمہاری عادت تھی
پھر بھی کتنا ملول رہتا تھا
اپنی تنہائی کے گلے لگ کر
سارے آنسو وہ رو گیا اک دن
ایک پتھر سے دل لگی کر کے
خود بھی پتھر کا ہو گیا اک دن
اب وہ تم سے تو کچھ نہیں کہتا
بے نیازی کے دکھ نہیں سہتا
اس کی آنکھیں اب اس کی آنکھیں ہیں
اس کی باتیں اب اس کی باتیں ہیں
بھول جانا تمہاری عادت ہے
اس کی باتوں کو بھول جاؤ نا
اب وہ اِک شخص دسترس میں نہیں
اس سے ملنا تمہارے بس میں نہیں
کس لیے اب اداس بیٹھی ہو؟؟؟

Hasti ka aitbar kiay baghair raha na jay

Hasti ka aitbar kiay baghair raha na jay…

Dunia hai yahan par jiye bin raha na jay…

Katti nhe yeh zindagi umeed kay baghair…

Yeh jaam wo hai jis ko piay bin raha na jay…

Chahat ka zakham dil ko tamasha na bana day…

Aisa hai chaak jis ko siye bin raha na jay…