درخت بجھ گئے، چراغ کٹ گئے ۔۔۔
تجھے کیا خبر، تیرے بعد کیا کیا ھوا ۔۔۔
کہاں جوڑ پائیں گے ہم دھڑکنوں کو
کہ دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوئے ہیں
یہ مانا کہ تم سے خفا ہیں ذرا ہم
مگر زندگی سے بھی روٹھے ہوئے ہیں
یہی ہم نے سیکھا ہے جرمِ وفا سے
بچھڑ جائیے گا تو مر جائیے گا۔۔۔۔
میرے پاس تم ھو ۔۔۔
وہ کتابوں میں درج تھا ہی نہیں
جو پڑھایا سبق زمانے نے
حال دل کا سناتے ھوئے
میں رو پڑا مسکراتے ہوئے
مختصر کہوں, تو سنو
بہت مختصر ھوں, تیرے بغیر
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری یہی ہے باد مراد
قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہوں
Aesi Tareekyan Aankhon Mein Basi Hain Faraz
Raat Tu Raat Hai, Ham Din Ko Bhi Jalate Hain Chiragh
Rooth Janay Ki Ada Ham Ko Bi Ati Hay
Kash Hota Koi Ham Ko Bi Mnane Wala
Jo Tu Nahi Tu Ye Mukamal Na Ho Saken Gi
Teri Yehi Ahmiyat Hai Meri Kahaniyon Mein