درخت بجھ گئے، چراغ کٹ گئے ۔۔۔
تجھے کیا خبر، تیرے بعد کیا کیا ھوا ۔۔۔
کہاں جوڑ پائیں گے ہم دھڑکنوں کو
کہ دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوئے ہیں
یہ مانا کہ تم سے خفا ہیں ذرا ہم
مگر زندگی سے بھی روٹھے ہوئے ہیں
یہی ہم نے سیکھا ہے جرمِ وفا سے
بچھڑ جائیے گا تو مر جائیے گا۔۔۔۔
میرے پاس تم ھو ۔۔۔
وہ کتابوں میں درج تھا ہی نہیں
جو پڑھایا سبق زمانے نے
حال دل کا سناتے ھوئے
میں رو پڑا مسکراتے ہوئے
مختصر کہوں, تو سنو
بہت مختصر ھوں, تیرے بغیر
یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے
..سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو
?…..کب ہو گے …… میسّر تم
..رقیبوں کو ……جلانا ہے
پھر یقیں کی بساط پر
ہم بہت اعتماد سے ہارے
کچھ کتابوں کی رازداری ہم
…خشک پھولوں کے نام کرتے ہیں
تم رنگ ہو کھلتی کلیوں کا
….تم میری اذیّت کیا جانو